میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
متاعِ غیر
میرے خوابوں کے جھروکوں کو سجانے والی
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں
چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں
عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشاں سی تھی
اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے
میری اُجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں
تُو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے
کبھی اپنی سی، کبھی غیر نظر آئی ہے
کبھی اخلاص کی مُورت کبھی ہرجائی ہے
پیار پر بس تو نہیں ہے مِرا لیکن پھر بھی
تُو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
تُو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں
ان تمناؤں کا اظہار کروں یا نہ کروں
تُو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن
میری راتیں تِری خوشبو سے بسی رہتی ہیں
تُو کہیں بھی ہو تِرے پھول سے عارض کی قسم
تیری پلکیں مِری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں
تیرے ہاتھوں کی حرارت، تِرے سانسوں کی مہک
تیرتی رہتی ہے احساس کی پہنائی میں
ڈھونڈھتی رہتی ہیں تخیل کی بانہیں تجھ کو
سرد راتوں کی سلگتی ہوئی تنہائی میں
تیرا اندازِ کرم ایک حقیقت ہے، مگر
یہ حقیقت بھی حقیقت میں فسانہ ہی نہ ہو
تیری مانوس نگاہوں کا یہ محتاط پیام
دل کے خوں کرنے کا ایک اور بہانہ ہی نہ ہو
کون جانے میرے امروز کا فردا کیا ہے
قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں
دل کے دامن سے لپٹتی ہوئی رنگیں نظریں
دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں
میری درماندہ جوانی کی تمناؤں کے
مضمحل خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو
تیرے دامن میں گلستاں بھی ہیں ویرانے بھی
میرا حاصل مِری تقدیر بتا دے مجھ کو
تیرے خوابوں میں کہیں میرا گزر ہے کہ نہیں
پوچھ کر اپنی نگاہوں سے بتا دے مجھ کو
میری راتوں کے مقدر میں سحر ہے کہ نہیں
چار دن کی یہ رفاقت جو رفاقت بھی نہیں
عمر بھر کے لیے آزار ہوئی جاتی ہے
زندگی یوں تو ہمیشہ سے پریشاں سی تھی
اب تو ہر سانس گراں بار ہوئی جاتی ہے
میری اُجڑی ہوئی نیندوں کے شبستانوں میں
تُو کسی خواب کے پیکر کی طرح آئی ہے
کبھی اپنی سی، کبھی غیر نظر آئی ہے
کبھی اخلاص کی مُورت کبھی ہرجائی ہے
پیار پر بس تو نہیں ہے مِرا لیکن پھر بھی
تُو بتا دے کہ تجھے پیار کروں یا نہ کروں
تُو نے خود اپنے تبسم سے جگایا ہے جنہیں
ان تمناؤں کا اظہار کروں یا نہ کروں
تُو کسی اور کے دامن کی کلی ہے لیکن
میری راتیں تِری خوشبو سے بسی رہتی ہیں
تُو کہیں بھی ہو تِرے پھول سے عارض کی قسم
تیری پلکیں مِری آنکھوں پہ جھکی رہتی ہیں
تیرے ہاتھوں کی حرارت، تِرے سانسوں کی مہک
تیرتی رہتی ہے احساس کی پہنائی میں
ڈھونڈھتی رہتی ہیں تخیل کی بانہیں تجھ کو
سرد راتوں کی سلگتی ہوئی تنہائی میں
تیرا اندازِ کرم ایک حقیقت ہے، مگر
یہ حقیقت بھی حقیقت میں فسانہ ہی نہ ہو
تیری مانوس نگاہوں کا یہ محتاط پیام
دل کے خوں کرنے کا ایک اور بہانہ ہی نہ ہو
کون جانے میرے امروز کا فردا کیا ہے
قربتیں بڑھ کے پشیمان بھی ہو جاتی ہیں
دل کے دامن سے لپٹتی ہوئی رنگیں نظریں
دیکھتے دیکھتے انجان بھی ہو جاتی ہیں
میری درماندہ جوانی کی تمناؤں کے
مضمحل خواب کی تعبیر بتا دے مجھ کو
تیرے دامن میں گلستاں بھی ہیں ویرانے بھی
میرا حاصل مِری تقدیر بتا دے مجھ کو
ساحر لدھیانوی
No comments:
Post a Comment