Saturday 5 April 2014

میرے قلم پہ رہی نوک جس کے خنجر کی

میرے قلم پہ رہی نوک جس کے خنجر کی
سنا ہے اس کی زباں بھی ہوئی ہے پتھر کی
رواں ہے قُلزمِ خوں اندرونِ شہر بھی سیکھ
کہ خوش نما تو بہت ہے فصیل باہر کی
اجاڑ پیڑ گئے موسموں کو روتے ہیں
ہر آبجو کو ہوس پی گئی سمندر کی
فقیہِ شہر جبیں پر کلاہِ زر رکھے
سنا رہا ہے ہمیں آیتیں مقدر کی
خود اپنے خوں میں نہائے ہوئے مگر چپ ہیں
یہ لوگ ہیں کہ چٹانیں ہیں سرخ پتھر کی
وہ ایک شخص کہ سورج کے روپ میں آیا
چرا کے لے گیا شمعیں فرازؔ ہر گھر کی

احمد فراز

No comments:

Post a Comment