Saturday 5 April 2014

روشن کیے جو دل نے کبھی دن ڈھلے چراغ

روشن کیے جو دل نے کبھی دن ڈھلے چراغ
اپنے اجاڑ گھر میں لگے کیا بھلے چراغ
شاید میرا وجود ہی سورج تھا شہر میں
میں بجھ گیا تو کتنے گھروں میں جلے چراغ
دریا کی تہ میں کتنے ستاروں کا عکس تھا
پانی کے ساتھ ساتھ کہاں تک چلے چراغ
اے صبح کی شریر کرن! ان کا احترام
طے کر گئے ہیں شب کے سبھی مرحلے چراغ
کیوں کر نہ ہم بجھیں تجھے مل کر کہ بزم میں
سورج تیرا بدن ہے تو ہم دل جلے چراغ
محسنؔ وہ ڈھونڈھتا تھا کسے پچھلی رات کو
آنکھیں ہوا کی زد میں تھیں دامن تلے چراغ

محسن نقوی

No comments:

Post a Comment