روشن کیے جو دل نے کبھی دن ڈھلے چراغ
اپنے اجاڑ گھر میں لگے کیا بھلے چراغ
شاید میرا وجود ہی سورج تھا شہر میں
میں بجھ گیا تو کتنے گھروں میں جلے چراغ
دریا کی تہ میں کتنے ستاروں کا عکس تھا
اے صبح کی شریر کرن! ان کا احترام
طے کر گئے ہیں شب کے سبھی مرحلے چراغ
کیوں کر نہ ہم بجھیں تجھے مل کر کہ بزم میں
سورج تیرا بدن ہے تو ہم دل جلے چراغ
محسنؔ وہ ڈھونڈھتا تھا کسے پچھلی رات کو
آنکھیں ہوا کی زد میں تھیں دامن تلے چراغ
محسن نقوی
No comments:
Post a Comment