جرم انکار کی سزا ہی دے
میرے حق میں بھی کچھ سنا ہی دے
شوق میں ہم نہیں زیادہ طلب
جو تیرا ناز کم نگاہی دے
تُو نے تاروں سے شب کی مانگ بھری
تُو نے بنجر زمین کو پھول دئیے
مجھ کو اک زخمِ دلکشا ہی دے
بستیوں کو دئیے ہیں تو نے چراغ
دشتِ دل کو بھی کوئی راہی دے
عمر بھر کی نواگری کا صلہ
اے خدا! کوئی ہمنوا ہی دے
زرد رو ہیں ورق خیالوں کے
اے شبِ ہجر کچھ سیاہی دے
گر مجالِ سخن نہیں ناصرؔ
لبِ خامشی سے گواہی دے
ناصر کاظمی
No comments:
Post a Comment