نہ میرے لیے حُسن میں اب کشش ہے، نہ کچھ کیف ہے رندی و سرکشی میں
یہ کیا ہو گیا میری دیوانگی کو، یہ کیا انقلاب آ گیا زندگی میں
بہت بے وفا ہیں وفا کرنے والے، یہ تم کن خیالوں میں کھوئی ہوئی ہو
کسے فرصتِ کاروبارِ وفا ہے، کسے دِل کا احساس ہے بے حسی میں
بھلا دو جنوں کے وہ سارے فسانے، وہ اپنا ترنم، وہ میرے ترانے
میں کب سے کڑی دھوپ میں چل رہا ہوں، نہ گیسو کا سایہ نہ آنچل کی چھاؤں
کبھی کتنی ہی شبنمی خلوتیں تھیں، میرے جادۂ شوق و آشفتگی میں
اگر اب نہیں تو بہت جلد تم کو، بھلانے پہ مجبور کر دے گی دنیا
وہ سب عہد و پیماں جو تم نے کیے تھے تصور کی مہکی ہوئی چاندنی میں
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment