Friday 11 April 2014

کیسی ہی کیوں نہ ہم میں تم میں لڑائیاں ہوں

کیسی ہی کیوں نہ ہم میں تم میں لڑائیاں ہوں
جب کھِلکھلا کے ہنس دو، باہم صفائیاں ہوں
کیوں کر نہ گدگداہٹ ہاتھوں میں اُس کے اُٹھے
وہ گوری گوری رانیں جس نے دبائیاں ہوں
جی چاہتا ہے بولیں پر بولتے نہیں ہیں
ہوویں اگر تو باہم ایسی رکھائیاں ہوں
ممکن ہے کوئی ہم سے افشائے راز ہووے
سو بار ٹھنڈی سانسیں گو لب تک آئیاں ہوں
کیوں کر جنوں مجسم ہو کر نہ دے دکھائی
جب شورشوں نے دل کی، دُھومیں مچائیاں ہوں
ناز و کرشمہ ایسا، سَج دَھج غضب یہ جس میں
اور یہ نمک، یہ گرمی، یہ خُوش ادائیاں ہوں
چِتون میں وہ لگاوٹ، سُرمہ کی وہ گھلاوٹ
پھر قہر یہ سحاوٹ، یہ اچپلائیاں ہوں
مرجائیے نہ کیوں کر ایسے ہوئے یہ ظالم
جس میں اکھٹی اتنی باتیں سمائیاں ہوں
پڑھ اور بھی غزل ایک انشاؔ اسی طرح سے
تا شاعروں کے آگے تیری بڑائیاں ہوں​

انشا اللہ خان انشا

No comments:

Post a Comment