Friday 11 April 2014

زباں پہ حرف سے پہلے ہی زخم آ جاتا

زباں پہ حرف سے پہلے ہی زخم آ جاتا 
یہ حالِ دل تھا تو کیا حالِ دل کہا جاتا
حیرت میں ہوں کہ سارا جہاں ہے سحر زدہ 
جو دیکھتا تھا اُسے دیکھتا چلا جاتا
وفا کا نام ہے ناکامئِ محبت سے
وگرنہ کُوئے ہوس تک یہ سلسلہ جاتا
اگر یہ زخم نہ بھرتا تو دل نہیں دُکھتا
 اگر یہ درد نہ تھمتا تو، چین آ جاتا
کسی کے ہجر کو جی سے لگا لیا ہے عبث
 یہ چند روز کا آزار تھا، چلا جاتا
کیا ہے جس سے بھی اُس کی ستمگری کا گِلہ 
 وہ اپنی درد بھری داستاں سنا جاتا
عجب ادا سے وہ گل پیرہن ہے محوِ خرام 
فرازؔ! دیکھ بہاروں کا قافلہ جاتا

احمد فراز

No comments:

Post a Comment