ہم زندگی شناس تھے سب سے جدا رہے
بستی میں ہول آیا، تو جنگل میں جا رہے
کمرے میں میرے دھوپ کا آنا بوقت صبح
آنکھوں میں کاش ایک ہی منظر بسا رہے
پھر آج میرے درد نے مجھ کو منا لیا
کب تک کسی پڑاؤ پہ وحشت کرے قیام
کب تک کسی کے ہجر کا سایہ گھنا رہے
شہپر صدائے وقت سے کر لو مصالحت
محرومیوں کے در پہ کوئی کیوں پڑا رہے
شہپر رسول
No comments:
Post a Comment