Thursday 27 April 2017

ہم زندگی شناس تھے سب سے جدا رہے

ہم زندگی شناس تھے سب سے جدا رہے
بستی میں ہول آیا، تو جنگل میں جا رہے
کمرے میں میرے دھوپ کا آنا بوقت صبح
آنکھوں میں کاش ایک ہی منظر بسا رہے
پھر آج میرے درد نے مجھ کو منا لیا
کوئی کسی عزیز سے کب تک خفا رہے
کب تک کسی پڑاؤ پہ وحشت کرے قیام
کب تک کسی کے ہجر کا سایہ گھنا رہے
شہپر صدائے وقت سے کر لو مصالحت
محرومیوں کے در پہ کوئی کیوں پڑا رہے

شہپر رسول

No comments:

Post a Comment