کتنے احسان فروشوں کا بھرم توڑ دیا
دے کے خیراتِ سخن ہم نے قلم توڑ دیا
ہم نے احرامِ محبت کبھی بدلا ہی نہیں
تم نے موجود جو تھا دل میں حرم توڑ دیا
رفتہ رفتہ مِرے احباب ہوئے دشمنِ جاں
کیسی تنہائی سی تنہائی ہے اطراف مِرے
اس کی یادوں نے بھی حد ہو گئی دم توڑ دیا
شیشۂ دل میں جو برسوں سے سجا رکھا تھا
ہم نے گھبرا کے وہی نقشِ اہم توڑ دیا
بھاگتی دوڑتی سانسوں کو سنبھالیں کب تک
نفسا نفسی نے مِرا جاہ و حشم توڑ دیا
خود فریبی نے نئے خواب دکھا کر مجھ کو
میرا ادراکِ وجود اور عدم توڑ دیا
آخرش ہجر کی ریحانؔ ہوا ایسی چلی
دل کے مندر میں جو رکھا تھا صنم توڑ دیا
ریحان اعظمی
No comments:
Post a Comment