بھروسہ کر کے دیکھا میں نے تو سو بار دل سے
وہ چہرے سے بہت معصوم ہے، عیار دل سے
سنے گا شوق سے قصے زمانے بھر کے لیکن
کہاں سنتا ہے دل کی بات وہ دلدار دل سے
ہو اقلیمِ شہنشاہی کہ جمہوری ولایت
کٹا سکتے نہیں انگلی بھی اب تو اس کی خاطر
کبھی ہم جان تک دینے کو تھے تیار دل سے
کچھ اپنے بھی تو شامل تھے عدو کے ساتھ اس میں
کروں میں کس طرح تسلیم اپنی ہار دل سے
دِکھانے کے لیے دنیا کو چاہے کچھ بھی کر دیں
کبھی بھی صلح کر سکتے نہیں اغیار دل سے
نبھائی ایک مدت ہم نے لیکن آج کل کچھ
مرا دل مجھ سے ہے بیزار، میں بیزار دل سے
چہکتی بولتی دھڑکن ہوئی ویران کیونکر
کوئی پوچھے کبھی آ کر مرے بیمار دل سے
اترتے ہیں کچھ اُس کے دل میں بھی یہ دیکھنا ہے
لکھے ہیں میں نے تو یہ سب کے سب اشعار دل سے
باصر کاظمی
No comments:
Post a Comment