کیوں ہو گیا ہے سرد یہ بازار کچھ کہو
یوسفؑ کا بھی نہیں ہے خریدار کچھ کہو
اے حازقانِ وقت، طرحدار کچھ کہو
کیوں ہے خموش آپ کا بیمار کچھ کہو
زنداں میں رہ کے کس لیے لب ہیں تمہارے بند
چہرے پہ چھا رہی ہیں ہر اک کے اداسیاں
تم مسکرا کے اے مِری سرکار کچھ کہو
اک بار پھر نکل کے ذرا آؤ بام پر
بیٹھے ہو کس لیے پسِ دیوار کچھ کہو
پیغام شعر میں ہے نہ تصویر میں ہے رنگ
اے شاعر، اے مصور و فن کار کچھ کہو
مرجھا رہے ہیں پھول تو کلیاں اداس ہیں
کیوں ہے خزاں گزیدہ یہ گلزار کچھ کہو
اے عارفانِ فکر و حقیقت کہو تو کچھ
ذہنوں میں کیا تمہارے ہیں انگار کچھ کہو
انسانیت پہ آج کا انسان ہے بار کیوں
کچھ تو بتاؤ صاحبِ اسرار کچھ کہو
تم سے بھی وہ خفا ہیں یہ کیا ماجرا ہوا
تم تو بہت تھے ان کے وفادار کچھ کہو
گفتار کا تو ذکر بہت ہو چکا ہے فوقؔ
کردار کیا ہے غازئ گفتار کچھ کہو
فوق کریمی
No comments:
Post a Comment