دنیائے حسن و عشق میں کس کا ظہور تھا
ہر آنکھ برق پاش تھی، ہر ذرہ نور تھا
میری نظر کی آڑ میں ان کا ظہور تھا
اللہ ان کے نور کا پردہ بھی نور تھا
تھی ہر تڑپ سکون کی دنیا ہوئے
ہم کشتگانِ غم پہ یہ الزامِ زندگی
بے مہر کچھ تو پاسِ حقیقت ضرور تھا
بالیں پہ تم جب آئے تو آئی وہ موت بھی
جس موت کے لیے مجھے جینا ضرور تھا
تھی ان کے روبرو بھی وہ شانِ اضطراب
دل کو بھی اپنی وضع پہ کتنا غرور تھا
اٹھ کر چلے تو حشر بھی اٹھنا تھا کیا ضرور
ان کی گلی سے مدفنِ فانیؔ تو دور تھا
فانی بدایونی
No comments:
Post a Comment