Saturday 29 April 2017

ساقی کے گیسوؤں کی ہوا کھا رہا ہوں

ساقی کے گیسوؤں کی ہوا کھا رہا ہوں
اور اس ہوا کے ساتھ اڑا جا رہا ہوں میں
اے وحشتِ خیال! نتیجہ تیرے سپرد
ساغر کو کائنات سے ٹکرا رہا ہوں میں
جاتا ہوں بزمِ حشر میں اس بے دلی کے ساتھ
جیسے کسی رقیب کے گھر جا رہا ہوں میں
دَیر و حرم کی گَرد بہت دور رہ گئی
شاید کہ مے کدے کے قریب آ رہا ہوں میں
مجھ سا بھی سادہ لوح کوئی ہو گا اے عدؔم
قصداً خراب ہونے کو پھر جا رہا ہوں میں
یوں اس کی اک نظر نے کیا ہے عدؔم خراب
جیسے کے رات بھر کہیں پیتا رہا ہوں میں

عبدالحمید عدم

No comments:

Post a Comment