یہ اداسی یہ پھیلتے سائے
ہم تجھے یاد کر کے پچھتائے
مل گیا تھا سکوں نگاہوں کو
کی تمنا تو اشک بھر آئے
گل ہی اکتا گئے ہیں گلشن سے
ہم جو پہنچے تو رہگزر ہی نہ تھی
تم جو آئے تو منزلیں لائے
جو زمانے کا ساتھ دے نہ سکے
وہ تِرے آستاں سے لوٹ آئے
بس وہی تھے متاع دیدہ و دل
جتنے آنسو مژہ تلک آئے
زہرا نگاہ
No comments:
Post a Comment