Wednesday 5 April 2017

یہ اداسی یہ پھیلتے سائے

یہ اداسی یہ پھیلتے سائے
ہم تجھے یاد کر کے پچھتائے
مل گیا تھا سکوں نگاہوں کو
کی تمنا تو اشک بھر آئے
گل ہی اکتا گئے ہیں گلشن سے
باغباں سے کہو نہ گھبرائے
ہم جو پہنچے تو رہگزر ہی نہ تھی
تم جو آئے تو منزلیں لائے
جو زمانے کا ساتھ دے نہ سکے
وہ تِرے آستاں سے لوٹ آئے
بس وہی تھے متاع دیدہ و دل
جتنے آنسو مژہ تلک آئے

زہرا نگاہ

No comments:

Post a Comment