دنیا تو بچھاتی تھی ہر موڑ پہ دام اپنا
بچ بچ کے گزرنا ہی برسوں سے ہے کام اپنا
مائل تھی بنانے پر دنیا تو غلام اپنا
خالی ہی رہا کب سے اس بزم میں جام اپنا
ہر چند کہ لمحاتی ٹھیرا ہے قیام اپنا
آنے نہیں دیتا تھا دنیا میں نظام اپنا
مولود تو لاتا ہے ساتھ اپنے طعام اپنا
دیوار نہ در اپنا، ایوان نہ بام اپنا
ہم دوست جسے سمجھے دشمن تھا مدام اپنا
الزام تجھے کیا دیں تھا مال ہی خام اپنا
گرتا ہی رہا ہر دم بازار میں دام اپنا
کوشش تو یہی کی تھی بن جائے مقام اپنا
تھا کام تو غیروں کا جھنڈے پہ تھا نام اپنا
جاتے ہوئے موسم کی خدمت میں سلام اپنا
تو چھوڑ کے جاتا ہے نام اپنا مقام اپنا
رؤف خیر
No comments:
Post a Comment