Friday, 7 April 2017

دنیا تو بچھاتی تھی ہر موڑ پہ دام اپنا

دنیا تو بچھاتی تھی ہر موڑ پہ دام اپنا
بچ بچ کے گزرنا ہی برسوں سے ہے کام اپنا
مائل تھی بنانے پر دنیا تو غلام اپنا
خالی ہی رہا کب سے اس بزم میں جام اپنا
ہر چند کہ لمحاتی ٹھیرا ہے قیام اپنا
تا حشر کہاں ٹھیرے گا حسنِ کلام اپنا
آنے نہیں دیتا تھا دنیا میں نظام اپنا
مولود تو لاتا ہے ساتھ اپنے طعام اپنا
دیوار نہ در اپنا، ایوان نہ بام اپنا
ہم دوست جسے سمجھے دشمن تھا مدام اپنا
الزام تجھے کیا دیں تھا مال ہی خام اپنا
گرتا ہی رہا ہر دم بازار میں دام اپنا
کوشش تو یہی کی تھی بن جائے مقام اپنا
تھا کام تو غیروں کا جھنڈے پہ تھا نام اپنا
جاتے ہوئے موسم کی خدمت میں سلام اپنا
تو چھوڑ کے جاتا ہے نام اپنا مقام اپنا

رؤف خیر

No comments:

Post a Comment