Friday 7 April 2017

دم صبح آندھیوں نے جنہیں رکھ دیا مسل کے

دمِ صبح آندھیوں نے جنہیں رکھ دیا مسل کے 
وہی ننھے ننھے پودے تھے گھنے درخت کل کے
نئے ساتھیوں کی دھن میں تِری دوستی کو چھوڑا
کوئی تجھ سا بھی نہ پایا تِرے شہر سے نکل کے
سرِ شام آج کوئی مِرے دل سے کہہ رہا ہے
کوئی چاند بھی تو نکلے، کوئی جام بھی تو چھلکے
وہی رسمِ کم نگاہی، وہی رات کی سیاہی
مِرے شہر کے چراغو! یہاں کیا کرو گے جل کے
نئے خواب میری منزل، تہِ آب میرا ساحل
تمہیں کیا ملے گا یارو! مِرے ساتھ ساتھ چل کے
یہ مشاہدہ ہے میرا رہِ زندگی میں باصرؔ
وہی منہ کے بل گرا ہے جو چلا سنبھل سنبھل کے

باصر کاظمی

No comments:

Post a Comment