Wednesday 19 April 2017

اب کے سفر میں پچھلے سفر سا مزا نہ تھا

اب کے سفر میں پچھلے سفر سا مزا نہ تھا
تلوے میں میرے جیسے کوئی آبلہ نہ تھا
یہ کیا کہ دو قدم پہ ہی سانسیں اکھڑ گئیں
پہلے تو چلتے چلتے کبھی ہانپتا نہ تھا
میں اس کے نام پہلے بھی لکھتا تھا خط، مگر
کاغذ تو اس طرح سے کبھی بھیگتا نہ تھا
تدبیر کارگر نہ ہوئی، ورنہ دوستو
لکھا مِرے نصیب کا ہرگز برا نہ تھا
ٹھکرا دیا تھا میں نے جسے تمکنت کے ساتھ
یارو، وہ تخت میرے کسی کام کا نہ تھا
خم ہو گیا تھا ایک قلندر کے سامنے
جو سر کسی امیر کے آگے جھکا نہ تھا
ذلت کا زہر حلق سے اترا نہیں کبھی
یارو، میں آدمی تھا، کوئی دیوتا نہ تھا
دامن متاعِ درد سے خالی نہ ہو کبھی
اس کے سوا میں کوئی دعا مانگتا نہ تھا
کیوں خوش لباس لوگوں کے چہرے اتر گئے
دست فراغؔ میں تو کوئی آئینہ نہ تھا

فراغ روہوی

No comments:

Post a Comment