اب کے سفر میں پچھلے سفر سا مزا نہ تھا
تلوے میں میرے جیسے کوئی آبلہ نہ تھا
یہ کیا کہ دو قدم پہ ہی سانسیں اکھڑ گئیں
پہلے تو چلتے چلتے کبھی ہانپتا نہ تھا
میں اس کے نام پہلے بھی لکھتا تھا خط، مگر
تدبیر کارگر نہ ہوئی، ورنہ دوستو
لکھا مِرے نصیب کا ہرگز برا نہ تھا
ٹھکرا دیا تھا میں نے جسے تمکنت کے ساتھ
یارو، وہ تخت میرے کسی کام کا نہ تھا
خم ہو گیا تھا ایک قلندر کے سامنے
جو سر کسی امیر کے آگے جھکا نہ تھا
ذلت کا زہر حلق سے اترا نہیں کبھی
یارو، میں آدمی تھا، کوئی دیوتا نہ تھا
دامن متاعِ درد سے خالی نہ ہو کبھی
اس کے سوا میں کوئی دعا مانگتا نہ تھا
کیوں خوش لباس لوگوں کے چہرے اتر گئے
دست فراغؔ میں تو کوئی آئینہ نہ تھا
فراغ روہوی
No comments:
Post a Comment