Saturday 8 April 2017

کوئی چلمن سے مسکرایا ہے

کوئی چلمن سے مسکرایا ہے
اب کہیں دھوپ ہے نہ سایا ہے
ابھی اپنا، ابھی پرایا ہے
دل نے بھی کیا مزاج پایا ہے
خوبرو لوگ بے مروت ہیں
ہم نے دل دے کے آزمایا ہے
منہ اترنے لگے حسینوں کے
حشر کا دن قریب آیا ہے
بند ہیں ہم پہ موت کی راہیں
مدتوں زہرِ غم بھی کھایا ہے
کیا کریں سیفؔ دیدہ و دل میں
اپنا تڑپنا قرار پایا ہے

سیف الدین سیف

No comments:

Post a Comment