Tuesday 4 April 2017

بجھتے ہوئے تاروں کی فضا ہے مرے دل میں

بجھتے ہوئے تاروں کی فضا ہے مِرے دل میں
پر دِیپ جو مٹی کا جلا ہے مرے دل میں
لوگوں نے حکایات سنی ہوں گی کم و بیش
وہ شہر، وہ خیمے، وہ سرا ہے مرے دل میں
میں راہ سے بھٹکوں تو کھٹکتی ہے کوئی بات
جس طرح کوئی سمت نما ہے مرے دل میں
گھر تو در و دیوار کی حد تک ہے سلامت
لیکن وہ جو کچھ ٹوٹ گیا ہے مرے دل میں
دنیا سے گزرنے کو ابھی عمر پڑی ہے
یہ خواب تو کچھ دن کو رکا ہے مرے دل میں
یہ لوگ ذرا دیر کو ٹل جائیں تو، صاحب
پھر دیکھیے کیا وقت ہوا ہے مرے دل میں

ادریس بابر

No comments:

Post a Comment