پتھروں جیسی خموشی نہیں آتی مجھ کو
موت اب اتنی بری بھی نہیں آتی مجھ کو
اب مساوات کا اِملا نہیں معلوم مجھے
اب یہ ترکیبِ ریاضی نہیں آتی مجھ کو
مِری آواز کو ٹی بی کا مرض ہو گیا ہے
سنتا رہتا ہوں کہانی تِرے ان ہونٹوں سے
رات کٹ جاتی ہے جھپکی نہیں آتی مجھ کو
جسم میں ڈوب کے باقی کے عدد بھول گیا
ایک کے بعد کی گنتی نہیں آتی مجھ کو
تصنیف حیدر
No comments:
Post a Comment