انصاف کے ماتھے پہ شکن دیکھ لیا ہے
ہم نے اثرِ دار و رسن دیکھ لیا ہے
غنچوں کا لڑکپن ہو کہ پھولوں کی جوانی
ہر ایک نے ماحولِ چمن دیکھ لیا ہے
میں نے تجھے ہر موڑ پہ اک خاص نظر سے
موسم کی لطافت پہ خزاؤں کے ہیں پہرے
پھولوں نے بہاروں کا چلن دیکھ لیا ہے
جس سیم بدن کو نہیں دیکھا تھا کسی نے
ہم نے اسے بے گور و کفن دیکھ لیا ہے
جس خار کا تم ذکر کیا کرتے ہو پیہم
چھالوں نے مِرے اس کا چبھن دیکھ لیا ہے
تنقید کی نظروں سے نہ دیکھے کوئ میکشؔ
احباب نے احباب کا فن دیکھ لیا ہے
میکش ناگپوری
No comments:
Post a Comment