نذرِ عقیدت
کہاں تلک غمِ دل کو نہ آشکار کروں
زبان بند رکھوں، صبر اختیار کروں
فسانۂ غمِ دل پڑھ کے رو رہا ہوں میں
نہیں یہ تاب کہ کچھ عرض حالِ زار کروں
بجائے خامہ مجھے چاہئے زبانِ سرشک
حریمِ دل میں ہے بے تاب حسرتوں کا ہجوم
کہاں تک، آہ! میں اِن زخموں کا شمار کروں
اگر میں شاہ جہاں ہوں تو تیرے قدموں پر
خزانۂ زر و لعل و گہر نثار کروں
اگر ہو کارگرِ دہر پر مرا قبضہ
تجھے میں ساری خدائی کا تاجدار کروں
گر ایک دن کے لئے تختِ جارج مل جائے
تو تیرے زیرِ نگیں ہند کا دیار کروں
اگر نظامِ فلک پر مری حکومت ہو
فدا ميں تجھ پہ ستاروں کے جلوہ زار کروں
جو روحِ فطرت گل میرے زیرِ فرماں ہو
تو تجھ پہ صدقے ہر اک باغ کی بہار کروں
اگر ہو گل کدۂ دہر پر مرا قبضہ
نثار تجھ پہ خدائی کے لالہ زار کروں
نہ ہو اگر مری تلوار ہند میں بے بس
تو فتح تیرے لئے بیسیوں دیار کروں
مرا قلم نہ ہو گر شکوہ سنجِ بے ہنری
تو اِس کو تیرے لئے صَرفِ جوشِ کار کروں
غرض نصیبوں کی برکت سے جو بھی حاصل ہو
وہ سب کا سب میں ترے نام پر نثار کروں
مگر یہ ساری امیدیں ہیں خوابِ بے تعمیر
کوئی بھی ایسی نہیں جس پہ اعتبار کروں
سوائے اس کے کہ اپنی حقیر ہستی کو
بطور نذر ترے قدموں پر نثار کروں
امیدِ دل کی کلی کھل کے پھول ہو جائے
یہ میری ”نذرِ عقیدت“ قبول ہو جائے
اختر شیرانی
No comments:
Post a Comment