کیا ان کے نہ آنے کی پھر آئی ہے خبر آج
سنسان نظر آتی ہے کیوں راہگزر آج
اے چارہ گرو غور سے بیمار کو دیکھو
دشوار نظر آنے لگی اس کو سحر آج
ہو جائے مرے خواب کی تعبیر مکمل
اے بۓ خودئ شوق مجھے یہ تو بتا دے
یہ کس کے تجسس میں بھٹکتی ہے نظر آج
رکتی نہیں اک پل بھی کسی زہرہ جبیں پر
کس سوچ میں گم ہے نگۂ آئینہ گر آج
یہ کیسا زمانہ ہے کہ راہوں کے علاوہ
محفوظ نہیں راہزنوں سے کوئی گھر آج
اِس بات پہ کب غور کیا ہے کبھی ہم نے
کیوں اپنی دعائیں ہوئیں محرومِ اثر آج
بن جاتی ہے یہ بیچ کی دیوار ہمالہ
کیسے ہو پڑوسی کو پڑوسی کی خبر آج
بخشا ہے اسے گردشِ دوراں نے تغیر
پہلا سا کہاں نورؔ ہے وہ نورِ سحر آج
نور سہارنپوری
No comments:
Post a Comment