Sunday, 30 April 2017

کیا ان کے نہ آنے کی پھر آئی ہے خبر آج

کیا ان کے نہ آنے کی پھر آئی ہے خبر آج
سنسان نظر آتی ہے کیوں راہگزر آج
اے چارہ گرو غور سے بیمار کو دیکھو
دشوار نظر آنے لگی اس کو سحر آج
ہو جائے مرے خواب کی تعبیر مکمل
اے کاش وہ بھولے سے ہی آ جائیں اِدھر آج
اے بۓ خودئ شوق مجھے یہ تو بتا دے
یہ کس کے تجسس میں بھٹکتی ہے نظر آج
رکتی نہیں اک پل بھی کسی زہرہ جبیں پر
کس سوچ میں گم ہے نگۂ آئینہ گر آج
یہ کیسا زمانہ ہے کہ راہوں کے علاوہ
محفوظ نہیں راہزنوں سے کوئی گھر آج
اِس بات پہ کب غور کیا ہے کبھی ہم نے
کیوں اپنی دعائیں ہوئیں محرومِ اثر آج
بن جاتی ہے یہ بیچ کی دیوار ہمالہ
کیسے ہو پڑوسی کو پڑوسی کی خبر آج
بخشا ہے اسے گردشِ دوراں نے تغیر
پہلا سا کہاں نورؔ ہے وہ نورِ سحر آج

نور سہارنپوری

No comments:

Post a Comment