خوشا قسمت وہ آئے ہیں تو ایسے میں دعا جاگے
گھٹا برسے، اٹھے ساغر، نظامِ مے کدہ جاگے
خمار آلودہ آنکھیں، سرخ چہرہ، منتشر زلفیں
وہ کیا جاگے کہ فطرت کے نقوشِ فتنہ زا جاگے
نہیں ٹوٹا ابھی پِندارِ زہد و اِتَّقا شاید
ہمیں تو دیکھنا یہ ہے گرے گی تب کہاں بجلی
وہ جب انگڑائی لے کر اٹھیں اور بندِ قبا جاگے
مہک کلیوں کی، پھولوں کا تبسم ماند ہو پل میں
کسی کی زلف کو چھو کر اگر بادِ صبا جاگے
کبھی ایسا بھی لمحہ کاش آ جائے محبت میں
’’ہماری خواہشیں سو جائیں ان کا مدعا جاگے‘‘
رہینِ خواب ہیں دیر و حرم کے پاسبان اب تک
یہ ممکن ہے کہ رند و مے کدہ میں اب خدا جاگے
یہ سوتے ہیں تو سونے دو نہ چھیڑو ان کو فرزانو
بِساطِ ہوش الٹ دیں گے جو دیوانے خدا جاگے
نظامِ بحر و بر جس نے بدل ڈالا تھا دنیا کا
وہی تکبیر پھر گونجے وہی دستِ دعا جاگے
سکوتِ مستقل قسمت نہ بن جائے سمندر کی
کوئی طوفان پھر اٹھے کوئی موجِ بلا جائے
ابھی سے فکر کیوں ردِّ عمل کی فوقؔ کرتے ہو
جفائیں اور بڑھنے دو کہ دل کا حوصلہ جاگے
فوق کریمی
No comments:
Post a Comment