Tuesday 4 April 2017

تو جو نہیں تو پھر مرا کوئی سا حال بھی سہی

تُو جو نہیں تو پھر مِرا کوئی سا حال بھی سہی
موت ہے تو وہی سہی، زیست ہے تو یہی سہی
ایسے لگا کہ چاند ہے، پھر یہ کھلا کہ پھول ہے
پاس تو جا کے دیکھیے، خواب ہے، خواب ہی سہی
بزم سے تھا میں رات الگ، ہے مری چپ کی بات الگ
جس کے جواب میں کہا اس نے کہ پھر کبھی سہی
صبح صلہ دیا گیا،۔۔۔۔ مجھ کو بجھا دیا گیا
جس نے یہ روشنی کہی، جس نے وہ تیرگی سہی
جنگ چھڑی تو اب کی بار کوئی نہ بچ کے جا سکا
پیڑ جو تھے بچے کھچے، گھاس جو تھی رہی سہی
ریت میں تہ بہ تہ نجوم، کھوئے ہوؤں کا اک ہجوم
دل میں اتر کے دیکھیے، دیکھیے سرسری سہی
بجھتے ہوئے ستاروں میں ایک وہ لاپتا بھی ہے
جس کی شناخت کچھ نہیں، ضد ہے تو شاعری سہی

ادریس بابر

No comments:

Post a Comment