Thursday 27 April 2017

سواد خط ترے خط میں تری تحریر کا سا تھا

سوادِ خط تِرے خط میں تِری تحریر کا سا تھا
مگر بگڑا ہوا میرے خطِ تقدیر کا سا تھا
تِری تصویر وہ جو ہے شباب آنے سے پہلے کی
فلک پر چودھویں کا چاند اسی تصویر کا سا تھا
کبھی دیکھا نہ تھا پہچاں سکتا کیا میں گیسو کو
کچھ اس کے سَر پہ ہاں لٹکا ہوا زنجیر کا سا تھا
کیا جادو بھی میں نے اسکی آنکھوں پر کہ مل جائیں
مِری قسمت سے وہ بھی آہِ بے تاثیر کا سا تھا
کوئی مجھ سے مِرے دل کے تڑپنے کا سبب پوچھے
نظارہ اس کی چتون کا نکیلا تیر کا سا تھا
ہوا جو دفن ابھی وہ ہو نہ ہو تیرا ہی عاشق ہو
بدن خشک اور چہرہ زرد اسی دلگیر کا سا تھا
خدا بخشے بہت ہی شوقؔ ہم کو یاد آتا ہے
وہ دل والا تھا درد اس میں جنابِ میر کا سا تھا

شوق قدوائی

No comments:

Post a Comment