Tuesday 4 April 2017

اس سے پہلے کہ زمیں زاد یہ ہمت کر جائیں

اس سے پہلے کہ زمیں زاد یہ ہمت کر جائیں
کچھ ستاروں نے یہ ٹھہرائی کہ ہجرت کر جائیں
دہر سے ہم یونہی بے کار چلے جاتے تھے
پھر یہ سوچا، کہ چلو ایک محبت کر جائیں
دولت خواب، ہمارے جو کسی کام نہ آئی
اب کسی کو نہیں ملنے کی، وصیت کر جائیں
اک ذرا وقت میسر ہو تو آئیں مِرے دوست
دل میں کھلتے ہوئے پھولوں کو نصیحت کر جائیں
ان ہوا خواہ سے کہنا کہ ذرا شام ڈھلے
آئیں تو بزمِ چراغاں کی صدارت کر جائیں
دل کی ہر ایک خرابی کا سبب جانتے ہیں
پھر بھی ممکن ہے کہ ہم، تم سے رعایت کر جائیں
شہر کے بعد تو صحرا تھا میاں! خیر ہوئی
دشت کے پار بھلا کیا ہے کہ وحشت کر جائیں
ریگِ دل میں ہیں جو نادیدہ پرندے مدفون
سوچتے ہوں گے کہ دریا کی زیارت کر جائیں

ادریس بابر

No comments:

Post a Comment