اس سے پہلے کہ زمیں زاد یہ ہمت کر جائیں
کچھ ستاروں نے یہ ٹھہرائی کہ ہجرت کر جائیں
دہر سے ہم یونہی بے کار چلے جاتے تھے
پھر یہ سوچا، کہ چلو ایک محبت کر جائیں
دولت خواب، ہمارے جو کسی کام نہ آئی
اک ذرا وقت میسر ہو تو آئیں مِرے دوست
دل میں کھلتے ہوئے پھولوں کو نصیحت کر جائیں
ان ہوا خواہ سے کہنا کہ ذرا شام ڈھلے
آئیں تو بزمِ چراغاں کی صدارت کر جائیں
دل کی ہر ایک خرابی کا سبب جانتے ہیں
پھر بھی ممکن ہے کہ ہم، تم سے رعایت کر جائیں
شہر کے بعد تو صحرا تھا میاں! خیر ہوئی
دشت کے پار بھلا کیا ہے کہ وحشت کر جائیں
ریگِ دل میں ہیں جو نادیدہ پرندے مدفون
سوچتے ہوں گے کہ دریا کی زیارت کر جائیں
ادریس بابر
No comments:
Post a Comment