شب کہیں رستے ہوئے زخموں کا خمیازہ نہ ہو
دن کے تلووں پر ہواؤں کا سیہ غازہ نہ ہو
دیکھ کر اب انتخاب خواب کرنا زندگی
یہ نہ ہو کہ خود کو کھو دینے کا اندازہ نہ ہو
ایسی کچھ افسردگی پانی پہ لکھی ہونٹ نے
زخم کو صیقل کیا برسوں میں اس تنہائی نے
اور مرہم چاہتا ہے کوئی آوازہ نہ ہو
کاٹ اپنی روح کو ایسے کہ اس کا اضطرار
رقص میں آ جائے لیکن برسر اعضا نہ ہو
تصنیف حیدر
No comments:
Post a Comment