Tuesday 11 April 2017

دل و نگاہ کے سب رابطے ہی توڑ گیا

دل و نگاہ کے سب رابطے ہی توڑ گیا
وہ میرے ہوش کو دیوانگی سے جوڑ گیا
ذرا سی بات ہے لیکن ذرا نہیں کھلتی
کبھی نہ ساتھ رہا جو، کبھی کا چھوڑ گیا
ہم اپنے کھیت کے ٹیلے رفو بھی کر لیتے
مگر وہ شخص تو دریا کا رخ ہی موڑ گیا
برس پڑے ہری شاخوں کے سبز پتے بھی
غزل میں ڈوبی ہوئی رُت کو یوں جھنجھوڑ گیا
وہ سی گیا، کہ یہ آنکھیں بھی زخم تھیں جیسے
یہ دل بھی جیسے کوئی آبلہ تھا، پھوڑ گیا
الجھ الجھ گئے منظر کہ اپنی پلکوں سے
وہ مہر زاد، شعاعیں سبھی مروڑ گیا
لہو کی لہر صدا کی طرح نکلتی ہے
مرے لبوں پہ عجیب سانحے نچوڑ گیا

اسلم کولسری

No comments:

Post a Comment