کیا خریدو گے جو اس شہر میں ہم بیچتے ہیں
ہم غریبانِ وطن، رنج و الم بیچتے ہیں
زہر لگتے ہیں مجھے ایسے لکھاری جو یہاں
چند سکوں کے عوض اپنا قلم بیچتے ہیں
ایسے کچھ لوگ تِری دنیا میں ہیں، ربِ جہاں
اپنا ایمان و یقیں، دِین و دَھرم بیچتے ہیں
کیسے مر جاتی ہے مخلوق یہاں سڑکوں پر
اور حاکم ہیں کہ وہ ظلم و ستم بیچتے ہیں
تم تو خوش ہو نا رقیبوں کی صفوں میں جا کر
تیرے عشاق یہاں، ہجر کے غم بیچتے ہیں
ایسے غدار بھی موجود ہیں اس دھرتی پہ
جو کہ توقیرِ وطن، سبز علم بیچتے ہیں
عابد کمالوی
No comments:
Post a Comment