صبحِ گل رنگ کوئی شام سہانی لا دے
کوئی تو وصل کے موسم کی نشانی لا دے
اتنا بے مول نہیں ہوں کہ سہارا مانگوں
ہو جو ممکن تو مجھے میری جوانی لا دے
کتنی پژمردہ ہیں اس شہر میں دل کی فصلیں
بارشیں پیار کی لا، درد کا پانی لا دے
جس کے ہر حرف سے سچائی کی کرنیں پھوٹیں
کوئی افسانہ، کوئی ایسی کہانی لا د ے
میرا معصوم سا بچپن ہے جہاں پر بکھرا
مجھ کو اس شہر سے یادیں ہی پرانی لا د ے
عابد کمالوی
No comments:
Post a Comment