اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
ڈال کر خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا
کچھ یہ مہندی نہیں میری کے مٹا بھی نہ سکوں
ضبط کمبخت نے اور آ کے گلا گھونٹا ہے
کہ اسے حال سناؤ تو سنا بھی نہ سکوں
اس کے پہلو میں جو لے جا کے سلا دوں دل کو
نیند ایسی اسے آئے کے جگا بھی نہ سکوں
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر، ورنہ
"کیا قسم ہے تیرے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں"
نقش پا دیکھ لوں لاکھ کروں گا سجدے
سر میرا عرش نہیں ہے کہ جھکا بھی نہ سکوں
بے وفا لکھتے ہیں وہ اپنی قلم سے مجھ کو
یہ وہ قسمت کا لکھا ہے جو مٹا بھی نہ سکوں
اس طرح سوئے ہیں سر رکھ کے میرے زانوں پر
اپنی سوئی ہوئی قسمت کو جگا بھی نہ سکوں
امیر مینائی
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
ڈال کر خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا
کچھ یہ مہندی نہیں میری کے مٹا بھی نہ سکوں
ضبط کمبخت نے اور آ کے گلا گھونٹا ہے
کہ اسے حال سناؤ تو سنا بھی نہ سکوں
اس کے پہلو میں جو لے جا کے سلا دوں دل کو
نیند ایسی اسے آئے کے جگا بھی نہ سکوں
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر، ورنہ
"کیا قسم ہے تیرے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں"
نقش پا دیکھ لوں لاکھ کروں گا سجدے
سر میرا عرش نہیں ہے کہ جھکا بھی نہ سکوں
بے وفا لکھتے ہیں وہ اپنی قلم سے مجھ کو
یہ وہ قسمت کا لکھا ہے جو مٹا بھی نہ سکوں
اس طرح سوئے ہیں سر رکھ کے میرے زانوں پر
اپنی سوئی ہوئی قسمت کو جگا بھی نہ سکوں
امیر مینائی
وصل میں چھیڑ نہ اتنا اسے اے شوق وصال
ReplyDeleteکہ وہ روئے تو کسی طرح منا بھی نہ سکوں
کوئی پوچھے تو محبت سے یہ کیا ہے انصاف
وہ مجھے دل سے بھلا دے میں بھلا بھی نہ سکوں
ہائے کیا سحر ہے یہ حسن کہ مانگیں جو حسیں
دل بچا بھی نہ سکوں جان چھڑا بھی نہ سکوں
ایک نالے میں جہاں کو تہہ و بالا کر دوں
کچھ تیرا دل یہ نہیں ہے کہ ہلا بھی نہ سکوں