Monday 27 April 2015

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں

اس کی حسرت ہے جسے دل سے مٹا بھی نہ سکوں
ڈھونڈنے اس کو چلا ہوں جسے پا بھی نہ سکوں
ڈال کر خاک میرے خون پہ قاتل نے کہا
کچھ یہ مہندی نہیں میری کے مٹا بھی نہ سکوں
ضبط کمبخت نے اور آ کے گلا گھونٹا ہے
کہ اسے حال سناؤ تو سنا بھی نہ سکوں
اس کے پہلو میں جو لے جا کے سلا دوں دل کو
نیند ایسی اسے آئے کے جگا بھی نہ سکوں
مہرباں ہو کے بلا لو مجھے چاہو جس وقت
میں گیا وقت نہیں ہوں کہ پھر آ بھی نہ سکوں
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
زہر ملتا ہی نہیں مجھ کو ستم گر، ورنہ
"کیا قسم ہے تیرے ملنے کی کہ کھا بھی نہ سکوں"
نقش پا دیکھ لوں لاکھ کروں گا سجدے
سر میرا عرش نہیں ہے کہ جھکا بھی نہ سکوں
بے وفا لکھتے ہیں وہ اپنی قلم سے مجھ کو
یہ وہ قسمت کا لکھا ہے جو مٹا بھی نہ سکوں
اس طرح سوئے ہیں سر رکھ کے میرے زانوں پر
اپنی سوئی ہوئی قسمت کو جگا بھی نہ سکوں

امیر مینائی

1 comment:

  1. وصل میں چھیڑ نہ اتنا اسے اے شوق وصال

    کہ وہ روئے تو کسی طرح منا بھی نہ سکوں

    کوئی پوچھے تو محبت سے یہ کیا ہے انصاف

    وہ مجھے دل سے بھلا دے میں بھلا بھی نہ سکوں

    ہائے کیا سحر ہے یہ حسن کہ مانگیں جو حسیں

    دل بچا بھی نہ سکوں جان چھڑا بھی نہ سکوں

    ایک نالے میں جہاں کو تہہ و بالا کر دوں

    کچھ تیرا دل یہ نہیں ہے کہ ہلا بھی نہ سکوں

    ReplyDelete