Wednesday 22 April 2015

قربتوں کے نشے تھے جو وہ اترنے لگے

قُربتوں کے نشے تھے جو وہ اترنے لگے
ہوا چلی تو جھونکے اداس کرنے لگے
گئی رُتوں کا تعلق بھی جان لیوا تھا
بہت سے پھول نئے موسموں میں مرنے لگے
وہ مدتوں کی جدائی کے بعد ہم سے ملا
تو اس طرح سے کہ اب ہم گریز کرنے لگے
غزل میں جیسے تِرے خد و خال بول اٹھیں
کہ جس طرح تِری تصویر بات کرنے لگے
بہت دنوں سے وہ گھمبیر خامشی ہے فرازؔ
کہ لوگ اپنے خیالوں سے آپ ڈرنے لگے

احمد فراز

No comments:

Post a Comment