ہاتھ اٹھائے ہیں مگر لب پہ دعا کوئی نہیں
کی عبادت بھی تو وہ، جس کی جزا کوئی نہیں
آ، کہ اب تسلیم کر لیں تُو نہیں تو میں سہی
کون مانے گا کہ ہم میں بے وفا کوئی نہیں
وقت نے وہ خاک اڑائی ہے کہ دل کے دشت سے
خود کو یوں محصور کر بیٹھا ہوں اپنی ذات میں
منزلیں چاروں طرف ہیں، راستہ کوئی نہیں
کیسے رستوں سے چلے اور یہ کہاں پہنچے فرازؔ
یا ہجومِ دوستاں تھا ساتھ، یا کوئی نہیں
احمد فراز
No comments:
Post a Comment