Monday, 27 April 2015

رند خراب تیرا وہ مے پیے ہوئے ہے

رِندِ خراب تیرا وہ مے پیے ہوئے ہے
لذت سے جان جس پر زاہد دیے ہوئے ہے
کس شان سے وہ مے کش آتا ہے میکدے میں
قاضی سبو، صراحی مفتی لیے ہوئے ہے
آتا نہیں نظر کچھ، گو سامنا ہے اس کا
کیا بیچ میں تحیّر، پردہ کیے ہوئے ہے
ہو کون بخیہ گر سے زخمی کا تیرے ساعی
رشتہ کھنچا ہے سوزن، منہ کو سیے ہوئے ہے
پیرِ مغاں، وہ کاملِ مرشد ہے بادہ خوارو
جمشید بھی پیالہ اس کا پیے ہوئے ہے
حُرمت میں دختِ رز کی، اصرار ہے جو اتنا
یہ بات کیا ہے رِندو! واعظ پیے ہوئے ہے
رحم اب امیرؔ پر بھی لازم ہے یار تجھ کو
کب سے ڈھئی وہ تیرے، در پر دیے ہوئے ہے

امیر مینائی

No comments:

Post a Comment