کیسے کیسے خواب دیکھے، دربدر کیسے ہوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے
نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی
سائباں کیسے اڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے
کیا کہیں وہ زلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھُلی
ہم طرفدارِ ہوائے راہگزر کیسے ہوئے
حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے
اک ذرا سی زندگی میں، اس قدر کیسے ہوئے
ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر
چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہوئے
کیا بتائیں روز و شب اپنے بسر کیسے ہوئے
نیند کب آنکھوں میں آئی، کب ہوا ایسی چلی
سائباں کیسے اڑے، ویراں نگر کیسے ہوئے
کیا کہیں وہ زلفِ سرکش کس طرح ہم پر کھُلی
ہم طرفدارِ ہوائے راہگزر کیسے ہوئے
حادثے ہوتے ہی رہتے ہیں مگر یہ حادثے
اک ذرا سی زندگی میں، اس قدر کیسے ہوئے
ایک تھی منزل ہماری، ایک تھی راہِ سفر
چلتے چلتے تم اُدھر، اور ہم اِدھر کیسے ہوئے
رسا چغتائی
No comments:
Post a Comment