Sunday, 19 April 2015

غم چھیڑتا ہے ساز رگ جاں کبھی کبھی

غم چھیڑتا ہے سازِ رگِ جاں کبھی کبھی
ہوتی ہے کائنات غزل خواں کبھی کبھی
ہم نے دیئے ہیں عشق کو تیور نئے نئے
ان سے بھی ہو گئی ہیں گریزاں کبھی کبھی
اس حسنِ اتفاق کی تصویر کھینچ لو
ہوتے ہیں ایک ساحل و طوفاں کبھی کبھی
ہوتے ہیں شہرِ گل میں حوادث تو روز روز
رکتا ہے کاروانِ بہاراں کبھی کبھی
کیسا شراب خانہ، کہاں کا صنم کدہ
کعبہ میں لٹ گیا ہے مسلماں کبھی کبھی
ہم بے کسوں کی بزم میں آۓ گا اور کون
آ بیٹھتی ہے گردشِ دوراں کبھی کبھی
کچھ اور بڑھ گئی ہے اندھیروں کی زندگی
یوں بھی ہوا ہے جشنِ چراغاں کبھی کبھی
احباب کی بلندئ اخلاق دیکھ کر
دشمن بھی ہو گیا ہے پشیماں کبھی کبھی
اے دولتِ سکوں کے طلب گار! دیکھنا
شبنم سے جل گیا ہے گلستاں کبھی کبھی
قابلؔ مِری نگاہ کے چرچے ہیں دور دور
آتا ہے بتکدے میں مسلماں کبھی کبھی

قابل اجمیری

No comments:

Post a Comment