کبھی مقتل کے مقابل کبھی زِندان کے قریب
ہم بہر حال رہے منزلِ جاناں کے قریب
جھِلملاتے ہوئے تاروں نے بھی دَم توڑ دیا
آخرِ شب ہے چلے آؤ رگِ جان کے قریب
سینہ چاکانِ چمن آج ادھر سے گزرے
بُوئے گل، میلِ رَم، موجِ صبا آوارہ
اک بیابان کی ضرورت ہے گلستان کے قریب
پھول اپنے نہ بہار اپنی، مگر ہم قابلؔ
جانے کیا سوچ کے بیٹھے ہیں گلستان کے قریب
قابل اجمیری
No comments:
Post a Comment