Monday 20 April 2015

ابھی جو شعر سنے تم نے ابتدا کے مرے

ابھی جو شعر سنے تم نے ابتدا کے مِرے 
یہ سارے حرف ہیں بھائی کسی دعا کے مِرے
فقط کتابیں نہیں، خواب بھی پڑے ہوئے ہیں 
تُو دیکھ سکتا ہے کمرے میں یار جا کے مِرے
سنا ہے شہر کے بچوں میں اس کا چرچا ہے 
کھلونے بیچ رہا ہے جو سب چُرا کے مِرے
مجھے چراغ کی عزت کا پاس ہے، ورنہ 
ہوا تو پاؤں پکڑتی ہے روز آ کے مِرے
اسے میں پھول نہ کرتا تو اور کیا کرتا 
کسی نے سامنے رکھی تھی آگ لا کے مِرے
اب اور خاک پزیرائی ہو کہ لوگوں نے 
خدا کو رام کیا ہے بھجن سنا کے مِرے
پھر اس کے بعد مجھے نیند آ گئی عامیؔ
کسی نے شور مچایا، وہ پاس آ کے مِرے

عمران عامی

No comments:

Post a Comment