Thursday 30 April 2015

کب ہم نے یہ چاہا تھا تا عمر ٹھہر جاتے

کب ہم نے یہ چاہا تھا، تا عمر ٹھہر جاتے
کچھ خواب تھے پلکوں کی دہلیز پہ دھر جاتے
یخ بستہ ہوائیں تو کہتی تھیں، پلٹ جاؤ
تم خود ہی زرا سوچو گهر ہوتا تو گهر جاتے
ہم پر تو مقفل تھا ہر شہر کا دروازه
وه کرب کی راتیں تھیں تم ہوتے تو مر جاتے
اک بار محبت سے آواز تو دی ہوتی
سو بار محبت میں ہم جاں سے گزر جاتے
ملنا نہیں ممکن تھا رَستہ ہی بدل لیتے
دل میں نہ اترنا تھا، دل سے ہی اتر جاتے
صد شکر کہ مٹی کی آغوش مِلی میثمؔ
ایسا بھی نہ گر ہوتا انسان کدھر جاتے

میثم علی آغا

No comments:

Post a Comment