عشق کے شعلے کو بھڑکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دِہکاؤ کہ کچھ رات کٹے
ہِجر میں مِلنے شب و ماہ کے غم آئے ہیں
چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے
کوئی جلتا ہی نہیں، کوئی پِگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ، پِگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے
چشم و رُخسار کے افکار کو جاری رکھو
پیار کے نغمے کو دُہراؤ کہ کچھ رات کٹے
آج ہو جانے دو ہر ایک کو بدمست و خراب
آج ایک ایک کو پِلواؤ کہ کچھ رات کٹے
کوہِ غم اور گراں، اور گراں، اور گراں
غمزدو! تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے
دل کے انگارے کو دِہکاؤ کہ کچھ رات کٹے
ہِجر میں مِلنے شب و ماہ کے غم آئے ہیں
چارہ سازوں کو بھی بلواؤ کہ کچھ رات کٹے
کوئی جلتا ہی نہیں، کوئی پِگھلتا ہی نہیں
موم بن جاؤ، پِگھل جاؤ کہ کچھ رات کٹے
چشم و رُخسار کے افکار کو جاری رکھو
پیار کے نغمے کو دُہراؤ کہ کچھ رات کٹے
آج ہو جانے دو ہر ایک کو بدمست و خراب
آج ایک ایک کو پِلواؤ کہ کچھ رات کٹے
کوہِ غم اور گراں، اور گراں، اور گراں
غمزدو! تیشے کو چمکاؤ کہ کچھ رات کٹے
مخدوم محی الدین
No comments:
Post a Comment