Tuesday 21 April 2015

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے

چاند کے ساتھ کئی درد پرانے نکلے
کتنے غم تھے جو تیرے غم کے بہانے نکلے
فصلِ گل آئی پھر اک بار اسیرانِ وفا
اپنے ہی خون کے دریا میں نہانے نکلے
ہجر کی چوٹ عجب سنگ شکن ہوتی ہے
دل کی بے فیض زمینوں سے خزانے نکلے
عمر گزری ہے شبِ تار میں آنکھیں ملتے
کس افق سے مِرا خورشید نہ جانے نکلے
کوئے قاتل میں چلے جیسے شہیدوں کا جلوس
خواب یوں بھیگتی آنکھوں کو سجانے نکلے
دل نے اک اینٹ سے تعمیر کیا تاج محل
توُ نے اک بات کہی، لاکھ فسانے نکلے
دشتِ تنہائیِ ہجراں میں کھڑا سوچتا ہوں
ہائے کیا لوگ میرا ساتھ نبھانے نکلے
میں نے امجدؔ اسے بے واسطہ دیکھا ہی نہیں
وہ تو خوشبو میں بھی آہٹ کے بہانے نکلے

امجد اسلام امجد

No comments:

Post a Comment