اپنی مرضی سے کہاں اپنے قدم کھینچتے ہیں
ہم کو دنیا کی طرف رنج و الم کھینچتے ہیں
خود سے اکتائے ہوئے لوگوں کا مولا وارث
جانے کیا بات ہے جس کے لئے دَم کهینچتے ہیں
تیرا غم آنکھ کی پتلی میں حفاظت سے رہے
کھینچتا رہتا ہے یہ ہِجر ہمیں اپنی طرف
تھکنے لگتا ہے تو پهر ہِجر کو ہم کھینچتے ہیں
غم کده سینے کے اندر ہی اتارا ہوا ہے
سانس لیتے ہیں کہاں یار یہ غم کھینچتے ہیں
نوکِ پاپوش پہ رکھی ہوئی دنیا، سن لے
ہم نہیں جن کو تِرے جاه و حشم کھینچتے ہیں
میثم علی آغا
No comments:
Post a Comment