مرتی ہوئی زمیں کو بچانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت پہ آنا پڑا مجھے
وہ کر نہیں رہا تھا مِری بات کا یقین
پر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے
بھولے سے مِری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ اک زخم لگانا پڑا مجھے
اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے
یادیں تھیں دفن ایسے کہ بعد از فروخت بھی
اس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے
اس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے
ایسے بچھڑ کے اس نے تو مر جانا تھا حسن
اس کی نظر میں خود کو گرانا پڑا مجھے
بادل کی طرح دشت پہ آنا پڑا مجھے
وہ کر نہیں رہا تھا مِری بات کا یقین
پر یوں ہوا کہ مر کے دکھانا پڑا مجھے
بھولے سے مِری سمت کوئی دیکھتا نہ تھا
چہرے پہ اک زخم لگانا پڑا مجھے
اس اجنبی سے ہاتھ ملانے کے واسطے
محفل میں سب سے ہاتھ ملانا پڑا مجھے
یادیں تھیں دفن ایسے کہ بعد از فروخت بھی
اس گھر کی دیکھ بھال کو جانا پڑا مجھے
اس بے وفا کی یاد دلاتا تھا بار بار
کل آئینے پہ ہاتھ اٹھانا پڑا مجھے
ایسے بچھڑ کے اس نے تو مر جانا تھا حسن
اس کی نظر میں خود کو گرانا پڑا مجھے
حسن عباسی
No comments:
Post a Comment