Thursday 30 April 2015

رات بھر دیدہ غمناک میں لہراتے رہے

رات بھر دیدۂ غمناک میں لہراتے رہے
سانس کی طرح سے آپ آتے رہے، جاتے رہے
خوش تھے ہم اپنی تمناؤں کا خواب آئے گا
اپنا ارمان برافگندہ نقاب آئے گا
نظریں نیچی کئے شرمائے ہوئے آئے گا
کاکلیں چہرے پہ بکھرائے ہوئے آئے گا
آ گئی تھی دلِ مُضطر میں شکیبائی سی
بج رہی تھی میرے غم خانے میں شہنائی سی
شب کے جاگے ہوئے تاروں کو بھی نیند آنے لگی
آپ کے آنے کی اک آس تھی اب جانے لگی
صبح نے سیج سے اٹھتے ہوئے لی انگڑائی
او صبا تُو بھی جو آئی تو اکیلے آئی
میرے محبوب! میری نیند اڑانے والے
میرے مسجود! میری رُوح پہ چھانے والے
آ بھی جا، تاکہ میرے سجدوں کا ارماں نکلے
آ بھی جا، کہ تیرے قدموں پہ میری جاں نکلے

مخدوم محی الدین

No comments:

Post a Comment