جذبِ دل پر ناز تھا مجھ کو، مِرے کام آ گیا
دُور جو رہتا تھا مجھ سے، وہ سرِ شام آ گیا
حُسن برساتا ہوا جب وہ سرِ بام آ گیا
میرے لب پر دفعتاً اللہ کا نام آ گیا
چارہ گر بولا کہ بچنے کی کوئی اب کر سبیل
جو گزرنی تھی وہ گزری، غم نہیں دل کا ہمیں
کام آنا تھا محبت میں اِسے، کام آ گیا
التفاتِ خاص سے دیکھا جو ساقی نے کبھی
رِند یہ سمجھے، کہ گردش میں کوئی جام آ گیا
بے ٹھکانے ہو کے رہ جاتے غم و رنج و ملال
سچ تو یہ ہے، دل محبت میں بڑے کام آ گیا
لطف فرما جب نگاہِ پیر مئے خانہ ہوئی
خُم جُھکا، ساقی کُھلا، رِند آ گئے، جام آ گیا
باغباں مسرور، گلچیں شاد، خوش صیاد بھی
آج آخر کون گُلشن میں تہِ دام آ گیا
گِھر گئے کس واسطے غم کی گھٹاؤں میں نصیرؔ
کیا خیالِ گیسوئے جاناں سرِ شام آ گیا؟
سید نصیرالدین نصیر
No comments:
Post a Comment