Wednesday 29 April 2015

اک شخص پاس رہ کے بھی سمجھا نہیں مجھے

اِک شخص پاس رہ کے بھی سمجھا نہیں مجھے
اس بات کا ملال ہے، شِکوہ نہیں مجھے
میں اس کو بے وفائی کا الزام کیسے دوں
اس نے تو ابتدا سے ہی چاہا نہیں مجھے
کیا كيا امیدیں باندھ کر آیا تھا سامنے
اس نے تو آنکھ بھر کے بھی دیکھا نہیں مجھے
پتھر سمجھ کے پاؤں سے ٹھوکر لگا دیا
افسوس تیری آنکھ نے پرکھا نہیں مجھے
کب ٹھیرنا تھا مجھ کو حسن آج اس کے پاس
اچھا ہوا کہ اس نے بھی روکا نہیں مجھے

حسن عباسی

No comments:

Post a Comment