Monday 27 April 2015

گریہ بے سود ہے نالہ دل ناشاد عبث

گریہ بے سود ہے نالۂ دلِ ناشاد عبث
داد رس کوئی نہیں، شکوۂ بیداد عبث
کھنچ گئی رُوح بدن سے تِری شمشیر کے ساتھ
حوصلہ دار لگانے کا ہے جلاد عبث
ایک رنگ آتا ہے یاں ضعف سے اِک جاتا ہے
رنگ بھرتا مِرے نقشے میں ہے بہزاد عبث
بندہ ہوں تیری محبّت کا میں جاؤں گا کہاں
بند کرتا ہے قفس میں مجھے صیّاد عبث
ایک مشتاقِ شہادت بھی تو جوہر نہ ہُوا
تجھ میں جوہر بھی ہیں اے خنجرِِ فولاد عبث
وہ گُل آیا ہے، نہ آئے گا کبھی گلشن میں
سرو قد اُٹھتے ہیں تعطیم کو شمشاد عبث
داد بھی دے گا وہی جس نے یہ کی ہے بیداد
دوڑتی پھرتی ہے ہر سُو مِری فریاد عبث
لاکھوں گھر اور ہیں دل میں میرے کیا رکھا ہے
کرتی ہے خانہ خرابی اِسے برباد عبث
عُمرِ رفتہ پہ تأسّف سے نہیں کچھ حاصل
وہ ہمیں بھول گئے، کرتے ہیں ہم یاد عبث
سن کے اب دردِ دلِ عشق، یہ کہتا ہے وہ بُت
بندے اللہ کے ہو، مجھ سے ہے فریاد عبث
بال بال اِس کا گرفتار بَلا ہوتا ہے
بندۂ عشق کو سب کہتے ہیں آزاد عبث
جان دی کام میں معشوق کے، سب کچھ پایا
کون کہتا ہے کہ تھی محنتِ فرہاد عبث
انبیاء تک رہے پابند شریعت کے امیرؔ
ظاہری قید سے گھبراتے ہیں آزاد عبث

امیر مینائی 

No comments:

Post a Comment