Thursday 30 April 2015

وہ نہیں تو ڈستا ہے بام و در کا سناٹا

وہ نہیں تو ڈستا ہے بام و در کا سناٹا 
اف یہ دل کی ویرانی، یہ نظر کا سناٹا
خوش خیال لوگوں کو بدگماں نہ کر ڈالے
کچھ اِدھر کی خاموشی، کچھ اُدھر کا سناٹا
کاش کوئی پڑھ سکتا، کاش کوئی سن سکتا
شام کی شفق میں تھا رات بھر کا سناٹا
دوستی بڑی نازک چیز ہے زمانے میں 
دے گیا ہے اک لمحہ، عمر بھر کا سناٹا
جن کی کھڑکیوں میں کل ماہتاب ہنستے تھے
اب انہی مکانوں میں ہے کھنڈر کا سناٹا 
دل کو کیسے سمجھاؤں، بھولتا نہیں دانشؔ
اِک سفر کی کچھ باتیں، اِک سفر کا سناٹا

احسان دانش

No comments:

Post a Comment