Wednesday 29 April 2015

یہ جو پر شکستہ ہے فاختہ یہ جو زخم زخم گلاب ہے

یہ جو پر شکستہ ہے فاختہ، یہ جو زخم زخم گلاب ہے
یہ ہے داستاں مِرے عہد کی جہاں ظلمتوں کا نصاب ہے
جہاں ترجمانی ہو جھوٹ کی، جہاں حکمرانی ہو لوٹ کی
جہاں بات کرنا محال ہو ۔۔۔ وہاں آگہی بھی عذاب ہے
مِری جان ہونٹ تو کھول تو کبھی اپنےحق میں بھی بول تو
یہ عجیب ہے تِری خامشی، نہ سوال ہے، نہ جواب ہے
سرِ راہ چراغ جلےگا کیا، کوئی منزلوں کو چلے گا کیا
تِرا دل ہے ابھی بجھا ہوا، تِری آنکھ میں ابھی خواب ہے
وہی آب آب ہیں آبلے، وہی فصل فصل ہیں فاصلے
وہی خارخار ہے راہگزر، وہی دشت دشت سراب ہے
وہی بام و در ہیں جلے ہوئے وہی چاند چہرے ڈھلے ہوئے
وہی صبح کوئے ملال ہے وہی شامِ شہرِ خراب ہے
مجھے سعدؔ تجھ سے گلہ نہیں کہ میں خود ہی تجھ سےملا نہیں
مِری زندگی بھی عذاب ہے، تِری زندگی بھی عذاب ہے

سعد اللہ شاہ

No comments:

Post a Comment